اردوئے معلیٰ

جہان بھر میں نمایاں ہے اِک نظارۂ خیر

وہ عالمین کی رحمت کا استعارۂ خیر

 

بکھر ہی جانا تھا وحشت کے شر سمندر میں

نظر میں رہتا ہے میرے مگر کنارۂ خیر

 

مثالِ گنبدِ خضریٰ نہیں بجز اِس کے

زمینِ نور پہ رکھا ہے شاہ پارۂ خیر

 

قصورِ قیصر و کسریٰ دہل گئے جس سے

عرب کی وادی میں گونجا وہ ایک نعرۂ خیر

 

نئے معانی میں ڈھلتے گئے وہ عِلم و قلَم

حرا سے لے کے وہ آیا عجیب پارۂ خیر

 

زمیں پہ آیا تو جیسے ہوئی سحر بیدار

فلک پہ صدیوں سے روشن تھا اِک ستارۂ خیر

 

تمھاری نعت کے مابعد کچھ نہیں سوجھا

کچھ ایسے کھینچا ہے جذبوں نے گوشوارۂ خیر

 

بہ فیضِ نعتِ نبی سرخرو ہوں مَیں مقصودؔ

مِلا ہوا ہے ازل سے مجھے اشارۂ خیر

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ