حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا
میرا ہر حرف زمانے کی نظر میں چمکا
دے گیا کتنے شرف ایک سیہ پتھر کو
ایک بوسہ جو ترے لب سے حجر میں چمکا
وجہِ شادابیٔ عالم ہے یہ رنگِ اخضر
ہر زمانے میں ہر اک برگِ شجر میں چمکا
واسطہ ان کا دیا صلِ علٰی پڑھتے ہوئے
میرا ہر حرفِ دعا بابِ اثر میں چمکا
کیسے ہو شہرِ مدینہ کی بلندی کا بیاں
جس کے ذرے کا بدن روئے قمر میں چمکا
خواب خواہش کے حسیں طاق پہ رکھا ہی رہا
لمعۂ یاد مرے شام و سحر میں چمکا
ٹوٹتے حوصلے اشفاق جواں ہونے لگے
گنبدِ سبز مری راہ گزر میں چمکا