حسرت نکل رہی ہے سرکار کے نگر میں
قسمت بدل رہی ہے سرکار کے نگر میں
توحید و حق کی پھیلی دنیا میں روشنی جو
قندیل جل رہی ہے سرکار کے نگر میں
آ جائے موت ہم کو اے کاش اب یہیں پر
خواہش مچل رہی ہے سرکار کے نگر میں
ممنون ہر سحر ہے کہ ان کے حضور میں ہے
ہر شام ڈھل رہی ہے سرکار کے نگر میں
وہ آنکھ خشک تھی جو مدت سے میری یارو
موتی ابل رہی ہے سرکار کے نگر میں
دیکھا فداؔ یہ ہم نے شیطان کی بھی فطرت
ہاتھوں کو مل رہی ہے سرکار کے نگر میں