حکم خالق کا سُنا ، سر کو جھکا کر آیا
اپنی بخشش کے لیے آپ کے در پر آیا
روشنی پھیل گئی خاک سے افلاک تلک
جب تصور میں ترا چہرۂ انور آیا
صحنِ گلشن میں یہ خوشبو کبھی پہلے تو نہ تھی
میں نے پہچان لیا ، میرا گُلِ تر آیا
ذہنِ آوارہ مجھے اور طرف لے کے چلا
پھر بھی ہونٹوں پہ ترا نام برابر آیا
فردِ عصیاں کی سیاہی کو مٹانے کے لیے
موج در موج وہ رحمت کا سمندر آیا
عابدو! تم نے تو اعمال کا پھل پایا ہے
مجھ سے عاصی کے لیے شافعِ محشر آیا
خشک ہونٹوں نے پڑھا آخری لمحے میں درود
ہاتھ میں جام لیے ساقیٔ کوثر آیا
مشکلیں جان گئیں میری رسائی اخترؔ
جب مری ایک صدا پر مرا یاور آیا