حیات کچھ نہیں جو اُن کے ہم نہیں ہوئے تو
سفر عبث ہیں جو سوئے حرم نہیں ہوئے تو
زمانے اپنی ہی نظروں سے گرتے جائیں گے
اگر بلند نبی کے علم نہیں ہوئے تو
یقین کر لو کہ ہم تم بھٹک گئے ہیں کہیں
دیارِ پاک کی جانب قدم نہیں ہوئے تو
وہی نکالیں تو نکلیں گے بحرِ عصیاں سے
وجودیت کے خسارے عدم نہیں ہوئے تو
عمل کا کوئی دیا حشر میں نہ لو دے گا
ہمارے ساتھ جو خیر الامم نہیں ہوئے تو
حوالہ اُن کا میسر ہے تو کسے پرواہ
نگاہِ دہر میں ہم محترم نہیں ہوئے تو
عمل نے جامہءسنت درست پہنا نہیں
اگر فقیری میں رنگِ حشم نہیں ہوئے تو
دکانِ وقت سے کیا سرخوشی خریدیں گے
کرم کے سکے ہی ہم کو بہم نہیں ہوئے تو
ہم اُن کو نعت کی مسجد میں کیسے آنے دیں
جو شعر خونِ جگر سے رقم نہیں ہوئے تو