مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ میں خانہ بدوشوں کی
پرانی گرد میں ڈوبی ہوئی میراث کا
شاید کسی صورت میں وارث ہوں
کوئی بھی اجنبی رستہ نگاہوں سے گزر جائے
تو وہ میری نگاہوں میں اچانک گھر بنا لیتا ہے
اور میرے قدم اس راستے کی گرد سے
ملنے کو بانہیں کھول دیتے ہیں
کوئی بھی اجنبی چہرہ اچانک یوں بدلتا ہے
کہ اس چہرے سے آنکھوں کے کئی رشتے نکلتے ہیں
کوئی بھی اجنبی نغمہ سماعت سے گزرتا ہے
تو یوں لگتا ہے جیسے میں
کسی کی جگمگاتی مسکراہٹ بھول بیٹھا ہوں
کسی کی جگمگاتی مسکراہٹ
جس میں سانسوں کا حسیں آہنگ شامل تھا
مگر وہ مسکراہٹ کون سے چہرے پہ روشن تھی
ہزاروں کوششوں سے یاد اتنا بھی نہیں آتا
مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ جن خانہ بدوشوں کے قبیلے سے مرا رشتہ ہے
ان لوگوں کی نسلوں میں بہت سے لوگ ایسے ہیں
کہ جن کی ذات کے اندر
پہاڑوں کی ڈھلانوں پر تنا خیمہ سلامت ہے
کہ جن کی آنکھ اب تک بھی
زمینوں کی کسی تقسیم کو تسلیم کرنے ہی نہیں پائی
بہت سے ہونٹ ایسے ہیں
کہ جو بہتے ہوئے آزاد پانی کے
تھرکتے معجزاتی لمس کو محسوس کرتے ہیں
یہ سارے اجنبی رستے نئے چہرے نئی آنکھیں
مرے اپنے قبیلے کی بکھرتی ٹوٹتی ہستی کے گم گشتہ عناصر ہیں
ہمارے درمیاں بس وقت کی دیوار آئی ہے
وگرنہ ہاتھ بے کل ہیں ، لبوں کے خم مکمل ہیں
فقط اک بے گھری کی دیر ہے پھر ہم مکمل ہیں