خاکِ طیبہ کی طلب میں خاک ہو جائے حیات
رنج و غم درد و الم سے پاک ہو جائے حیات
زندگی کی زندگی ہے عشق و الفت آپ کی
حُبِّ احمد گر نہ ہو خاشاک ہو جائے حیات
اُسوۂ سرکار کا ہو جو کہ پیر و روز و شب
اس کی تو پھر حاملِ ادراک ہو جائے حیات
داغ ہائے عشقِ نبوی سے مُزّین قلب ہو
سب خیالاتِ غلط سے پاک ہو جائے حیات
بہرِ طارق ، خالد و سلمان و بوذر یا نبی
دشمنانِ دین پر بے باک ہو جائے حیات
گر مُشاہدؔ سنتِ سرکار اپنا لیں سبھی
زہرِ گنہ کے واسطے تریاک ہو جائے حیات