خزاں کے مارے ہوئے جانبِ بہار چلے

قرارِ پانے زمانے کے بیقرار چلے

وہیں پہ تھام لیا ان کو دستِ رحمت نے

نبی کے در کی طرف جب گنہگار چلے

اے تاجدارِ جہاں ، اے حبیبِ رب کریم

وہ بھیک دو کہ غریبوں کا کاروبار چلے

سمجھ کے تاج سلیماں حضور کی نعلین

سروں پہ رکھ کے زمانے کے تاجدار چلے

ہمارے پاس ہی کیا تھا جو نذر کرتے انہیں

بس ایک دل تھا جسے کر کے ہم نثار چلے

ریاض ان کے کرم سے ہوئی ہے جیت اپنی

وگرنہ بازی تھے ہم زندگی کی ہار چلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]