خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی
دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی
ان کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی
میں نہ جاؤں گا کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر
مجھ کو کوئے مصطفی کی چاکری اچھی لگی
یوں تو کہنے کو گزاری زندگی میں نے مگر
جو در آقا پہ گزاری وہ گھڑی اچھی لگی
والہانہ ہو گئے جو تیرے قدموں پر نثار
حق تعالی کو ادا ان کی بڑی اچھی لگی
ناز کر تو اے حلیمہ سرور کونین کو
گر لگی اچھی تو تیری جھونپڑی اچھی لگی
ساقی کوثر کا جس کو مل گیا جام ولا
کب اسے پھر مئے کدہ اور مئے کشی اچھی لگی
بے خودی میں کھینچ کے آ جاتے ہیں آقا کے غلام
محفل نعت نبی جس جا سجی اچھی لگی
رکھ دیئے سرکار کے قدموں پہ سلطانوں نے سر
سرور کون و مکاں کی سادگی اچھی لگی
دور رہ کر آستان سرور کونین سے
زندگی اچھی لگی نہ بندگی اچھی لگی
تھا مری دیوانگی میں بھی شعور احترام
میرے آقا کو مری دیوانگی اچھی لگی
مہر و ماہ کی روشنی مانا کہ ہے اچھی مگر
سبز گنبد کی مجھے تو روشنی اچھی لگی
آج محفل میں نیازی نعت جو میں نے پڑھی
عاشقان مصطفی کو وہ بڑی اچھی لگی