استغاثہ بحضور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
خوار ہے اُمت، پریشاں حال ہے ہر اُمتی
آدمی کے خون کا پیاسا ہوا ہے آدمی
اہلِ دیں کی زندگی دشوار ہو کر رہ گئی
چاہیے آقاا! عنایت کی نظر بس آپ کی
اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو
آپ کی اُمت میں جذبہ اب وہ پہلا سا نہیں
آہِ مظلوماں سے بھی ذوقِ عمل جاگا نہیں
اہلِ دل کڑھتے ہیں لیکن بس کوئی چلتا نہیں
آپ کے در کے علاوہ کوئی در بھی وا نہیں
اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو
کفر کی یلغار کی حد ہو گئی شاہِ اُمم
ہر طرف پھیلی ہوئی ہے تیرگی شاہِ اُمم
مٹ رہی ہے آج حق کی روشنی شاہِ اُمم
اب ضرورت ہے دعائے خاص کی شاہُِاُمم
اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو
آپ پر روشن ہے حالِ زار اُمت کا حضورا!
روح زخمی تھی، بدن بھی ہو گیا زخموں سے چور
ہو گئی ہر اک سعادت آج اِس اُمَّت سے دور
کاش پھر مل جائے اس اُمَّت کو پہلا سا شعور
اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو
یا شفیعِ روزِ محشر رحمۃً للعالمیں
چارہ ساز اس قوم کا جُز آپ کے کوئی نہیں
آنکھ ہر اِک نم ہے اس حالت پہ ہر دل ہے حزیں
مٹ رہا ہے خود مسلمانوں کے ہاتھوں اِن کا دیں
اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو
میں سراپا معصیت ہوں، میں مجسم ہوں اثیم
سیرت و کردار کی حاصل نہیں مجھ کو شمیم
آپ ہی ہوں گے شفیعِ عاصیاں یومِ عظیم
اُس گھڑی مجھ پر کرم فرمایئے میرے کریم
اے مکینِ گنبدِ خضریٰ نگاہِ لطف ہو