اردوئے معلیٰ

میں بناتا رہا وفا کی لکیر

میرے ہاتھوں میں تھی دعا کی لکیر

 

خود کشی میں نے ملتوی کر دی

جب ابھرنے لگی قضا کی لکیر

 

وقت کے ہاتھ فیصلے تھے اور

پتھروں پر لکھی خدا کی لکیر

 

خواب کو راستہ دکھاتی گئی

آسماں تک وہ انتہا کی لکیر

 

جرم ثابت نہیں ہوا میرا

کھینچ دی آپ نے سزا کی لکیر

 

کون سے موسموں کی آمد ہے

بن رہی ہے یہ کس فضا کی لکیر؟

 

دیجیے ہاتھ میرے ہاتھوں میں

دور تک کھینچئے ہوا کی لکیر

 

عشق میں ذات کی نفی سے قبل

کاٹنی تھی ہمیں انا کی لکیر

 

ہم نے دیکھی تھی اس کی آنکھوں میں

دلِ کافر تری ادا کی لکیر

 

ایک جانب تھی میری کھینچی ہوئی

دوسری سمت دلربا کی لکیر

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات