اردوئے معلیٰ

 

خورشید رسالت کی شعاؤں کا اثر ہے

احرام کی مانند مرا دامن تر ہے

 

نظارۂ فردوس کی یا رب نہیں فرصت

اس وقت مدینے کی فضا پیش نظر ہے

 

اس شہر کے ذرے میں مہ و مہر سے بڑھ کر

جس شہر میں اللہ کے محبوب کا گھر ہے

 

یہ راہ کے کنکر ہیں کہ بکھرے ہوئے تارے

یہ کاہ کشاں ہے کہ تری گرد سفر ہے

 

اس صاحب معراج کے در کا ہوں بھکاری

قرآن میں جس کے لیے ” مازاغ البصر ” ہے

 

اک مہر لقا ماہ حرا کا ہے یہ اعجاز

ہر اشک مری آنکھ کا تابندہ گہر ہے

 

میں گنبد خضرا کی طرف دیکھ رہا ہوں

کوثرؔ مرے نزدیک یہ معراج نظر ہے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ