خوشا ذکر اس نبوت کے بطل کا
زباں میری مزہ لوٹے عسل کا
کرے گا کیا کوئی توصیف اس کی
جو ہے شہکار نقاشِ ازل کا
یقیناً آپ کی ذاتِ گرامی
سراپا آئینہ حسنِ ازل کا
انہیں کے ذکر کا اعجاز ہے یہ
بڑھا ہے کیف مینائے غزل کا
قدومِ میمنت سے چھَٹ گیا سب
جو اس عالم پہ طاری تھا دھندلکا
بنایا مامنِ انساں وہ خطہ
اکھاڑا جو کہ تھا جنگ و جدل کا
وہ تارا عرش کا تھا اس گھڑی بھی
ستارہ جب نہ تھا صبحِ ازل کا
وہ ہے سرور وہ ہے سرکارِ عالم
وہی ہادی ہے اقوام و ملل کا
نبی بعد ان کے اب آئے کہاں سے
بدل ممکن نہیں نعم البدل کا
رفاقت عمر بھر کی جس نے اس کی
پسِ مردن بھی ہے ساتھی بغل کا
منقش لوحِ دل پر اس کا قرآں
نہیں امکاں کسی ردّ و بدل کا
مرے اللہ پہنچا دے مدینہ
کہ اب تو آفتابِ عمر ڈھلکا
تمنا یہ بھی پوری ہو نظرؔ کی
مدینے میں پیام آئے اجل کا