خوشا وہ دل کہ جو دھڑکے بہ آرزوئے رسول
خوشا وہ دم کہ جو نکلے بہ جستجوئے رسول
مری نگاہ بھی پائے بصارتوں کا جواز
کبھی حیات میں دیکھوں جو حسنِ روئے رسول
چمک اٹھے گا سماعت کا ایک اک گوشہ
کبھی جو گوش میں اترے وہ گفتگوئے رسول
یہاں پہ ضبط ہے لازم اے نو نیازِ جنوں
نہیں ہے نجد کا صحرا کہ یہ ہے کوئے رسول
یہاں ہے طائرِ سدرہ بھی پَر دبائے ہوئے
وہ جانتا ہے کسے کہتے ہیں علوئے رسول
یہی ہے صوت پہ لازم کہ اپنی حد میں رہے
کبھی جو بولنا چاہے وہ رُو بروئے رسول
کھلیں نصیب جو میرے ظفر اجل کی گھڑی
بچھا کے راہ میں آنکھیں تکوں میں سوئے رسول