خوشبو طراز رنگوں کی جھالر ہے سامنے
اِک رشکِ خُلد شہر کا منظر ہے سامنے
وہ تھام لیں تو اُن کو ہیں زیبا عنایتیں
ورنہ تو کارِ خستہ کا دفتر ہے سامنے
اُن کی عطائے خاص کے ہیں ضابطے الگ
اِک بار مانگ لیں تو مکرّر ہے سامنے
آنکھیں جھُکی ہُوئی ہیں مکینانِ خُلد کی
عظمت مآب آپ کی دُختر ہے سامنے
معروف ہے جہان میں اپنا نشانِ ناز
ماتھے پہ نقشِ نعل کا جھُومر ہے سامنے
اے عہدِ پاسبانیٔ شمر و یزید سُن
موجِ خیالِ سبطِ پیمبر ہے سامنے
رکھتا ہُوں ساتھ ساتھ سحَر بار سلسلے
شامِ لقا کا خوابِ منوّر ہے سامنے
لکھنے لگا ہوں چاند ستاروں سے نعتِ نَو
جبریل کا رکھا ہُوا شہپَر ہے سامنے
یوں ہی نہیں تھمی ہے یہ صوتِ عطش کی گُونج
دستِ عطائے ساقیٔ کوثر ہے سامنے
نکہت نواز سبز سویرے ہیں روبرو
پیہم خیالِ گنبدِ اخضر ہے سامنے
مقصودؔؔ مجھ کو گرمیٔ محشر سے کیا خطر
جب سائبانِ شافعِ محشر ہے سامنے