اردوئے معلیٰ

درد روزن سے مجھے گھور رہا ہے اب تک

میں نے جو زخم سیا تھا وہ ہرا ہے اب تک

 

میرے جراح تجھے بھول کہاں سکتا ہوں

ایک نشتر مرے سینے میں گڑا ہے اب تک

 

ایک بس تیرے بدلنے پہ ہی موقوف نہیں

عشق کم بخت سے کیا خاک ہوا ہے اب تک

 

رات ہونے کو ہے بہتر ہے کہ اب کوچ کریں

جانے والا تو نہیں لوٹ سکا ہے اب تک

 

معجزہ چاہیئے قسمت کے مقابل کوئی

اور اس دل نے تماشہ ہی کیا ہے اب تک

 

بک گئے کار گہِ وقت میں اصنام مگر

دل وہ نادان کہ سجدے میں پڑا ہے اب تک

 

بات کچھ ہے تو بتا بھی کہ ستم گر تو نے

صرف اک نام تواتر سے لیا ہے اب تک

 

آنکھ جب دید سے عاری ہے کس کی خاطر

خواب پلکوں پہ کوئی جھول رہا ہے اب تک

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ