اردوئے معلیٰ

دشتِ قضاء میں خاک اُڑاتی حیات کی

مبہم سی ایک شکل رہی واقعات کی

 

آخر کو ارتکاز دھماکے سے پھٹ گیا

درپے کشش رہی تھی مرے شش جہات کی

 

جب میں ہی عارضی ہوں تو کیا دائمی وفا

جچتی نہیں ہے بات بھی لب پر ثبات کی

 

اُس آسماں بدوش نے پہلو بدل لیا

بنیاد ہل گئی ہے مری کائنات کی

 

میں کم نصیب تھا کہ فقط جان دے سکا

فہرست تو طویل رہی واجبات کی

 

لاحق تھا ایک قہر کہ جو ٹوٹتا نہ تھا

ممکن نہ تھی مجھے کوئی صورت نجات کی

 

ائے بارگاہِ ناز ، میں قربان گاہ سے

لایا ہوں لاش اپنی چنیدہ صفات کی

 

دو گز زمین تھی کہ وراثت ملی مجھے

میں صرف بازگشت ہوں آدم کی ذات کی

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات