دل میں ہو یاد تری گوشہء تنہائی ہو
پھر تو خلوت میں عجب انجمن آرائی ہو
اس کی قسمت پہ فدا تخت شہی کی راحت
خاکِ طیبہ پہ جسے چین کی نیند آئی ہو
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں کون تماشائی ہو
آج جو عیب کسی پر نہیں کُھلنے دیتے
کب وہ چاہیں گے مری حشر میں رسوائی ہو
یہی منظور تھا قدرت کو کہ سایہ نہ بنے
ایسے یکتا کے لیے ایسی ہی یکتائی ہو
کبھی ایسا نہ ہوا ان کے کرم کے صدقے
ہاتھ کے پھیلنے سے پہلے نہ بھیک آئی ہو
بند جب خوابِ اجل سے ہوں حسنؔ کی آنکھیں
اس کی نظروں میں ترا جلوئہ زیبائی ہو