اردوئے معلیٰ

دل ہم سے مقتضی ہے ثنائے حضور کا

ہم تک رہے ہیں نور چراغِ شعور کا

 

ذکر آ گیا زباں پہ مری آں حضور کا

عالم عجیب دل میں ہے کیف و سرور کا

 

میثاق انبیاء سے وہ ربِ غفور کا

چرچا ہوا ازل ہی سے ان کے ظہور کا

 

صورت ہے ان کی آئینۂ حسنِ لم یزل

سیرت پہ انعکاس ہے قرآں کے نور کا

 

اتنے گہر لٹائے ہیں دُرِّ یتیم نے

پیمانہ بھر گیا مرے علم و شعور کا

 

صد حیف ہم پہ آئیں جو اب بھی فریب میں

کھولا ہے اس نے راز متاعِ غرور کا

 

ان کی کتاب ساری کتابوں سے ہے بلند

انجیل ہی کا ہے نہ وہ پایہ زبور کا

 

اک کاروانِ شوق ترے آستاں پہ ہے

زائر طرح طرح کا ہے نزدیک و دور کا

 

دیکھا ہے اس نے جلوۂ حق اپنی آنکھ سے

قصہ ہے مختلف اَرَنی گوئے طور کا

 

روضہ پہ آنحضور کے جا دیکھ اے نظرؔ

منظر جو دیکھنا ہے تجھے سیلِ نور کا

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔