دم بخود ہے مہر شاہِ دوسرا کو دیکھ کر
چاند بھی حیرت میں ہے بدرالدجیٰ کو دیکھ کر
زندگی کے راستے میں ہم بھٹک سکتے نہیں
ہم سفر کرتے ہیں ان کے نقشِ پا کو دیکھ کر
ان کے اندازِ تکلم کی مثالی شان ہے
کْفر، ایماں میں ڈھلے حسنِ ادا کو دیکھ کر
ڈھونڈنے نکلی تھی مثلِ مصطفیٰ چشمِ خرد
لوٹی با حسرت مگر ارض و سما کو دیکھ کر
غیر کے در پر مجھے جانے کی حاجت ہی نہیں
مطمئن ہوں آپ کے دستِ عطا کو دیکھ کر
اے شہِ کون و مکاں للہ اک چشم کرم
دل ہے آزردہ زمانے کی ہوا کو دیکھ کر
طائرِ دل خوش ہوا ہے کس قدر میرا نہ پوچھ
سرورِ کونین کے باغِ ثنا کو دیکھ کر
اے شہِ کونین کی لختِ جگر اے سیدہ
رشک کرتی ہے حیا تیری حیا کو دیکھ کر
حیرتوں میں ہیں سلاطیں دم بخود اہلِ حشم
سرورِ کونین کے در کے گدا کو دیکھ کر
جذب کر لے گا حرارت اپنے سینے میں مجیبؔ
آفتابِ حشر بھی اُن کی ردا کو دیکھ کر