دُھوپ بڑھتی ہے تو بڑھ آتا ہے رحمت کا شجر
سائے میں رکھتا ہے مجھ کو تری نسبت کا شجر
روز اک تازہ حلاوت کا مزہ دیتا ہے
دل کے آنگن میں ثمر بار ہے مدحت کا شجر
باقی سب غنچہ و گُل شوخ و طرب ہیں، لیکن
گلشنِ حرف کی زینت ہے محبت کا شجر
اُن کی زلفوں کا ثنا گر ہوں تو یہ مان بھی ہے
حشر میں سایہ فگن ہوگا شفاعت کا شجر
لوحِ دل پر میں تجھے نظم کروں کس ڈھب سے
لوحِ ادراک پہ مرقوم ہے حیرت کا شجر
خَلق کو آج بھی رکھتا ہے اماں میں اپنی
سبز و شاداب و تناور تری عترت کا شجر
نسل در نسل غلامی کا شرف ہے حاصل
میری نسبت میں ہے مقصودؔ عقیدت کا شجر