اردوئے معلیٰ

دیدہ وروں سے کور نگاہی ملی مجھے

ایسے پڑھے ورق کہ سیاہی ملی مجھے

 

کس دشت میں چلا ہوں کہ احساس مر گیا

صورت دکھائی دی نہ صدا ہی ملی مجھے

 

خالی پیالے سینکڑوں ہاتھوں میں ہر طرف

تشنہ لبی اور ایک صراحی ملی مجھے

 

ہمزاد میرا مر گیا میری انا کے ساتھ

ورثے میں تخت ذات کی شاہی ملی مجھے

 

اپنی نظر میں خود مری توقیر بڑھ گئی

جب سے تری نظر کی گواہی ملی مجھے

 

دیوار اختلاف سلامت ہے شہر میں

دونوں طرف ہی ورنہ تباہی ملی مجھے

 

چاروں طرف خزانے محبت کے ہیں ظہیرؔ

جو چیز میں نے پیار سے چاہی ملی مجھے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔