دیدۂ شوق میں جب حاصلِ منظر ابھرے
مطلعِ حرف سے تب مدحِ پیمبر ابھرے
اسمِ تاباں شہِ کونین کا جب بھی سوچا
بامِ افکار پہ کیا کیا مہ و اختر ابھرے
ان کی طاعت میں کوئی بردہ مٹادے خود کو
اس پہ بھی بھیک میں کچھ حسنِ پیمبر ابھرے
ان کے عشّاق کو کس طرح مٹائے دنیا
ان کی الفت میں جو ڈوبے ہیں وہ بڑھ کر ابھرے
مٹ گیا نام زمانے سے ترے اعدا کا
جو بھی عاشق ہیں وہ عزّت کے فلک پر ابھرے
تیری نسبت سے ہی صدیق و عمر چمکے ہیں
تیری نسبت سے ہی عثماں ہوئے، حیدر ابھرے
تیرے ہی نقشِ قدم سے ہوا یثرب طیبہ
میرے دل پر بھی شہا نقشِ منوّر ابھرے
منتظر جس کی تمنّا میں رہا ہوں نوری
کاش جاتے ہوئے آنکھوں میں وہ منظر ابھرے