دے بصارت کو رسائی حسن کے دربار تک
سر جھکا کر دیکھ لو اُس گنبد و مینار تک
اک تھکا ہارا مسافر جیسے منزل یاب ہو
یوں غزل پہنچی ہے نعتِ سیدِ ابرار تک
ہے اسی در کی عطا ہر مرحلہ تعمیر کا
سوچ سے تجسیم تک، گفتار سے کردار تک
دوسرا کوئی نہیں جیسا مرا محبوب ہے
عشق جا پہنچا ہے اب تخلیق کے شہکار تک
خلد کے ماحول میں رہتا ہے ان کا نعت گو
خواہشِ مدحت سے اخترؔ مدحت سرکار تک