ذاتِ قدیم صاحبِ ہر فخر و ناز ہے

ستار ہے ، صمد ہے ، وہی بے نیاز ہے

رہتا ہے مہربان دوعالم پہ ہر گھڑی

میرا خدا کریم ہے ، بندہ نواز ہے

جھکتے ہیں اُس کے آگے ملک بھی رسول بھی

سارا اُسی کے واسطے عجز و نیاز ہے

نغمہ سرائے حمد ہے بارش کی بوند بوند

دستِ صبا میں اس کی عقیدت کا ساز ہے

جلوہ گری اُسی کی ہے نرگس کی آنکھ میں

اُس کے کرم سے کاکلِ سنبل دراز ہے

وہ کھولتا ہے گنبدِ بے در میں کھڑکیاں

دنیا میں اس کا لطف بلا امتیاز ہے

پاتا ہے ذاتِ حق سے وہ توفیق نعت کی

شہزاد اُس کے فضل سے جو سرفراز ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ضیائے کون و مکاں لا الٰہ الا اللہ

بنائے نظمِ جہاں لا الٰہ الا اللہ شفائے دردِ نہاں لا الٰہ الا اللہ سکونِ قلبِ تپاں لا الٰہ الا اللہ نفس نفس میں رواں لا الٰہ الا اللہ رگِ حیات کی جاں لا الٰہ الا اللہ بدستِ احمدِ مرسل بفضلِ ربِّ کریم ملی کلیدِ جناں لا الٰہ الا اللہ دلوں میں جڑ جو پکڑ […]

لفظ میں تاب نہیں، حرف میں ہمت نہیں ہے

لائقِ حمد، مجھے حمد کی طاقت نہیں ہے ایک آغاز ہے تو، جس کا نہیں ہے آغاز اک نہایت ہے مگر جس کی نہایت نہیں ہے وحشتِ قریۂ دل میں ترے ہونے کا یقیں ایسی جلوت ہے کہ مابعد بھی خلوت نہیں ہے ترا بندہ ہوں، ترے بندے کا مداح بھی ہوں اس سے آگے […]