ذرّے بھی اس کو دیدۂ بینا کی روشنی
ہاتھ آئے جس کو خاک کفِ پا کی روشنی
آنکھیں بچھا رہے ہیں مہ و برق و آفتاب
کیسے بیان ہو مرے آقا کی روشنی
عرش بریں پہ جلوے کچھ ایسے بکھر گئے
اب تک ہے دن کا دل شبِ اسریٰ کی روشنی
صرف ایک شہر طیبہ ہی مرکز نہیں کوئی
جنت میں بھی ہے گنبدِ خضریٰ کی روشنی
کیسے نہ آپ نزع میں جلوے دکھائیں گے
بیمار کا تو حق ہے مسیحا کی روشنی
اب تک خدا گواہ ! پریشاں ہے چشمِ شوق
موسیٰ سے پوچھو منزلِ سینا کی روشنی
سایہ کسی کو کیسے نظر آئے آپ کا
سایہ ہے خود ہی محفلِ دنیا کی روشنی
تاریکیٔ لحد اُسے کیا چیز ہے صبیحؔ
جس قلب میں ہو حسنِ سراپا کی روشنی