ذرۂ ناچیز کیا یہ وہ شہِ عالم کہاں
لکھ سکوں مدحت نبی کی مجھ میں اتنا دم کہاں
سیکڑوں آئے جلیل القدر پیغمبر مگر
کوئی بھی ہم رتبۂ پیغمبرِ خاتم کہاں
ورطۂ حیرت میں ڈالے واقعہ معراج کا
دیکھئے پہنچا ہے وہ فخرِ بنی آدم کہاں
واقفِ اسرارِ پنہاں جس قدر ہے مصطفیٰ
رازِ دو عالم کا کوئی اس قدر محرم کہاں
بعدِ اقوالِ پیمبر بعدِ قرآنِ مبیں
دین و دنیا کے حقائق رہ گئے مبہم کہاں
از احادیثِ پیمبر یا زِ قرآنِ حکیم
اور مل سکتی ہیں باتیں آپ کو محکم کہاں
روضۂ اطہر پہ یا پھر گنبدِ خضرا پہ ہے
بارشِ انوارِ یزداں اور یوں پیہم کہاں
باپ، ماں، خواہر، برادر، زوجۂ و بنت و ولد
عرصۂ محشر میں کوئی مونس و ہمدم کہاں
وہ شفیع المذنبیں ہوتا نہ محشر میں اگر
ہم سے بد اعمال جاتے، سوچتے ہیں ہم کہاں
جامِ کوثر بھی ملے پینے کو تو کیفِ مزید
کیفِ چشمِ ساقی کوثر ہی ورنہ کم کہاں
مصطفیٰ کے در پہ جا حاضر ہوئے ہم بھی نظرؔ
اور کرتے بھی مداوائے دلِ پُر غم کہاں