راکھ ہوتے ہوئے ہاتھوں کی جلن ایک طرف
کشتہِ شب نہ ہوئی حسرتِ خورشید بکف
دل دھڑکتا ہے ، طَبَل ہو کے سرِ قضاء
درد بڑھتا ہے رگ و پے میں بجاتے ہوئے دَف
جا گرے لاج کے پاتال میں اُٹھتے بادل
رہ گئی قطرہِ نَیساں کی طلب گار صدَف
تُو کہ اب زَد پہ زمانے کی بذاتِ خود ہے
کٹ گری ہے ترے عشاق کی اب آخری صَف
دل کو درپیش مہمات کی حد ہے شاید
ہم ہی ترکش ہیں، ہمی تیر ، ہمی لوگ ہدف
شعر تو خیر کہاں کے ، کہ ترے بے کس نے
کر دیے کرب کے لمحات ہی صفحات سے لَف
ہم کہاں ہیں نئی تزئین کو موزوں ناصر
کر دیے جائیں گے ہم لوگ بھی اک روز تَلَف