اردوئے معلیٰ

رستوں کا خوف ہے نہ مجھے فاصلوں کا ڈر

اُس کو سفر کا شوق، مجھے رہبروں کا ڈر

 

جب سر پہ دھوپ تھی تو رہی بادلوں کی آس

اب سر پہ چھت ہوئی تو مجھے بارشوں کا ڈر

 

اک شخص جاتے جاتے بہت خامشی کے ساتھ

کانوں پہ رکھ گیا ہے دبی آہٹوں کا ڈر

 

محتاط چل رہا ہوں کہ چاروں طرف مرے

شیشہ مزاج لوگ ہیں اور کرچیوں کا ڈر

 

دیکھے ہیں میری آنکھ نے سورج کے جب سے داغ

دل سے نکل گیا ہے مرے آئنوں کا ڈر

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات