رقص کیا رات بھر حدوں میں تھا
میں نہیں تھا اگر حدوں میں تھا
عشق جب سلطنت پہ حاکم تھا
کس قدر چین سرحدوں میں تھا
رات بھر شورِ ہاؤ ہُو کر کے
دل ، بوقتِ سحر حدوں میں تھا
رنگ بے حد حسین تھے ہر سُو
عجزِ دستِ ہنر حدوں میں تھا
کُھل گئے پھر تو وحشتوں کے پر
صرف پہلا سفر حدوں میں تھا
حد سے باہر بدک کے آ نکلے
ایک بے شکل ڈر حدوں میں تھا
میں تجاوز حدود سے کرتا
تُو حسیں ہی مگر حدوں میں تھا
فاصلہ ، تیرے در تلک ، دل کا
درد کی کارگر حدوں میں تھا