روز دیتا ہے جنوں میرا ، دہائی صاحب
موجۂ ہجر نے پکڑی جو کلائی صاحب
ہو نہ ہو یہ کسی دشمن کا کِیا لگتا ہے
ورنہ مقتل تو سجاتے نہیں بھائی ، صاحب
اپنی سوچوں کو بدلنے سے سماں بدلے گا
ٹھہرے پانی پہ تو جم جاتی ہے کائی صاحب
تھا ہُنر میرا کہ محفوظ رکھا آئینہ
ورنہ لمحوں نے بہت دھول اُڑائی صاحب
سننے والوں کی سماعت پہ کڑے پہرے تھے
کیا قیامت تھی کہ جو دل نے اُٹھائی صاحب
یہ بھی آدابِ محبت تھے نبھائے کومل
جب ترا ہجر پکارا ، کہا آئی صاحب