روشن ہو مرے دل میں دیا ان کی ولا کا
ہونٹوں پہ مرے ذکر رہے صلِ علیٰ کا
مشغول رہے میرا قلم اُن کی عطا سے
آ جائے سلیقہ بھی مجھے حمد وثنا کا
ہوں میرے مقدر میں بھی طیبہ کے شب وروز
عاجزپہ بڑا ہوگا یہ احسان خدا کا
خم ہونے لگا شکر کے سجدے میں فلک بھی
نظارہ جو دیکھا ترے نقشِ کفِ پا کا
حسرت ہے کہ مدحت کے پروتی رہوں موتی
تا زیست رہے سلسلہ یہ مجھ پہ عطا کا
انوار برستے ہیں جو سرکار کے در پر
ہو جائے عطا چھینٹا مجھے ایسی گھٹا کا
اے ناز تجھے آیا ہے طیبہ سے بلاوا
پیغام ملا آج تجھے بادِ صبا کا