رکھتے ہیں صرف اتنا نشاں ہم فقیر لوگ
ذکرِ نبی جہاں ہے وہاں ہم فقیر لوگ
ان کا کرم ہے ہم کو مدینے بُلا لیا
ورنہ کہاں مدینہ کہاں ہم فقیر لوگ
آقا کی رحمتوں سے برابر ہیں فیض یاب
جبریل آسماں پہ یہاں ہم فقیر لوگ
لیتے ہی نام ان کا مقدّر سنور گئے
پہنچے ہیں پھر کہاں سے کہاں ہم فقیر لوگ
ہم ہیں گناہگار، ہیں وہ شافعِ خطا
یوں پا گئے ہیں ان سے اماں ہم فقیر لوگ
خلوت نشینی و دمِ غربت کے باوجود
دستِ عطا سے کب ہیں نہاں ہم فقیر لوگ
مانا کہ اُن کے در پہ پہنچ بھی گیے عقیلؔ
کیسے کریں گے حال بیاں ہم فقیر لوگ