رہوں گر دور تجھ سے آتشِ فرقت جلاتی ہے

قریب آؤں تو تیرے سانس کی حدت جلاتی ہے

تجھے چھو لوں تو جل اٹھوں ، نہ چھو پاؤں تو جلتا ہوں

عجب نسبت ہے یہ جاناں ، بہ ہر صورت جلاتی ہے

تجھے تھا چند ساعت میرے ساتھ دھوپ میں چلنا

مجھے اب تک مرے احساس کی شدت جلاتی ہے

کروں پرواز تو کھینچے مجھے پاتال میں دھرتی

جو دھرتی پر رہوں تو خواہشِ رفعت جلاتی ہے

کسی دن راکھ ہو جاؤں گا جانِ نقش جل جل کر

ابھی تو دھیمے دھیمے تیری ہر عادت جلاتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]