اردوئے معلیٰ

 

زمانہ حج کا ہے جلوہ دیا ہے شاہدِ گل کو

الٰہی طاقتِ پرواز دے پر ہائے بلبل کو

 

بہاریں آئیں جوبن پر گھرا ہے ابر رحمت کا

لبِ مشتاق بھیگیں دے اجازت ساقیا مل کو

 

ملے لب سے وہ مشکیں مہر والی دم میں دم آئے

ٹپک سن کر قمِ عیسیٰ کہوں مستی میں قلقل کو

 

مچل جاؤں سوالِ مدعا پر تھام کر دامن

بہکنے کا بہانہ پاؤں قصدِ بے تامل کو

 

دعا کر بختِ خفتہ جاگ ہنگامِ اجابت ہے

ہٹایا صبحِ رخ سے شانے نے شبہائے کاکل کو

 

زبانِ فلسفی سے اَمن خرق و التیام اَسرا

پناہِ دورِ رحمت ہائے یک ساعت تسلسل کو

 

دو شنبہ مصطفٰے کا جمعہِ آدم سے بہتر ہے

سکھانا کیا لحاظِ حیثیت خوئے تأمُل کو

 

وفورِ شانِ رحمت کے سبب جرات ہے اے پیارے

نہ رکھ بہرِ خدا شرمندہ عرضِ بے تامل کو

 

پریشانی میں نام ان کا دلِ صد چاک سے نکلا

اجابت شانہ کرنے آئی گیسوئے توسل کو

 

رضؔا نہ سبزہ گردوں میں کوتل جس کے موکب کے

کوئی کیا لکھ سکے اسکی سواری کے تجمل کو

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ