زنجیر کس کی ہے کہ قدم شاد ہو گئے

بیڑی پہن کے لگتا ہے آزاد ہو گئے

جتنے بھی حرفِ سادہ ہوئے اُس سے منتسب

ہم رنگِ نقش مانی و بہزاد ہو گئے

سنگِ سخن میں جوئے معانی کی جستجو

گویا قلم بھی تیشۂ فرہاد ہو گئے

زندہ رہے اصولِ ضرورت کے ماتحت

جب چاہا زندگی نے ہم ایجاد ہو گئے

خود بیتی لگتی ہے مجھے ہر اک کی داستان

لگتا ہے ان گنت مرے ہمزاد ہو گئے

بیداد گر ملے سبھی ہم طرز و ہم خیال

سارے ستم زبانی ہمیں یاد ہو گئے

ق

آشوبِ احتیاج یہ کیسا ہے کیا کہیں

صبر و رضا کے لہجے بھی فریاد ہو گئے

آب و ہوائے شہر ہوس کچھ نہ پو چھئے

برباد وہ ہوئے کہ جو آباد ہو گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]