اردوئے معلیٰ

زنجیر کس کی ہے کہ قدم شاد ہو گئے

بیڑی پہن کے لگتا ہے آزاد ہو گئے

 

جتنے بھی حرفِ سادہ ہوئے اُس سے منتسب

ہم رنگِ نقش مانی و بہزاد ہو گئے

 

سنگِ سخن میں جوئے معانی کی جستجو

گویا قلم بھی تیشۂ فرہاد ہو گئے

 

زندہ رہے اصولِ ضرورت کے ماتحت

جب چاہا زندگی نے ہم ایجاد ہو گئے

 

خود بیتی لگتی ہے مجھے ہر اک کی داستان

لگتا ہے ان گنت مرے ہمزاد ہو گئے

 

بیداد گر ملے سبھی ہم طرز و ہم خیال

سارے ستم زبانی ہمیں یاد ہو گئے

ق

آشوبِ احتیاج یہ کیسا ہے کیا کہیں

صبر و رضا کے لہجے بھی فریاد ہو گئے

 

آب و ہوائے شہر ہوس کچھ نہ پو چھئے

برباد وہ ہوئے کہ جو آباد ہو گئے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ