سادگی ہوئی رخصت، زندگی کہاں جائے
زندگی کی خاطر اب آدمی کہاں جائے
جرم ہے دیا رکھنا شب پرست گلیوں میں
اس قدر اندھیرا ہے، روشنی کہاں جائے
ہر طرف مکان اونچے چیختی صداؤں کے
آسمان تکنے کو خامشی کہاں جائے
آنگنوں میں پہرے ہیں رات بھر اجا لوں کے
دشت میں نہ جائے تو چاندنی کہاں جائے
سُر تو ساتھ ہو لے گا گیت سننے والوں کے
سُر جگا کے چپ ہے جو بانسری کہاں جائے
ریت کے سمندر سے آ گئے ہیں برفوں تک
آبِ گم نہیں ملتا تشنگی کہاں جائے