اردوئے معلیٰ

مری ہمنوائی میں جب تلک مرے یارِ عربدہ جُو نہ تھے

پسِ پردہ سب تھے حریفِ جاں، کبھی روبرو تو عدو نہ تھے

 

گو خبر تھی اہلِ نظر کو سب، پہ بھرم تھا پھر بھی جہان میں

تہی دامنی کے یہ تذکرے کبھی زیبِ قریہ و کُو نہ تھے

 

مرے دوستوں کے وہ مشورے، صفِ دشمناں کے یہ فیصلے

تھے اگرچہ دونوں الگ الگ، کبھی مختلف سرِ مو نہ تھے

 

یہ ستم طرازیِ وقت ہے کہ ہماری غفلتِ بے اماں

وہی پاسبانِ حرم ہیں اب جو شریکِ کلمۂ ہُو نہ تھے

 

اک ادائے نفرتِ بے محل مرا اعتبار گنوا گئی

مرے ہم پیالہ و ہم نشیں، مرے تشنگانِ لہو نہ تھے

 

تھے ہمیشہ در پئے مال و زر، پہ اثاثِ دل پہ نظر کریں؟

اربابِ ظلم کے حوصلے تو بلند اتنے کبھو نہ تھے

 

وہی ہاتھ جن کو جنون تھا تزئینِ حسنِ بہار کا

وہ قلم ہوئے اِسی جرم میں کہ اسیر رسم غلو نہ تھے

 

سبھی ہو گئے کہیں در بدر، کہیں کھو گئے مرے خوش نظر

میں کہاں سے لاؤں وہ نقش گر جو بہارِ گل کا نمونہ تھے

 

یہ شہیدِ جلوۂ آگہی جنہیں تیرے درد نے چن لیا

وہی کشتگانِ خمار ہیں جو قتیلِ جام و سبو نہ تھے

 

جو نبردِ عشق میں کٹ گئے یا حضورِ ناز میں جھک گئے

وہی سر بلند رہے سدا جو ظہیرؔ بارِ گلو نہ تھے

 

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات