اردوئے معلیٰ

ستمگروں کے ستم کی اڑان کچھ کم ہے

ابھی زمین کے لیے آسمان کچھ کم ہے

 

جو اس خیال کو بھولے تو مارے جاؤ گے

کہ اپنی سمت قیامت کا دھیان کچھ کم ہے

 

ہمارے شہر میں خیر و عافیت ہے مگر

یہی کمی ہے کہ امن و امان کچھ کم ہے

 

بنا رہا ہے فلک بھی عذاب میرے لیے

تیری زمین پہ کیا امتحان کچھ کم ہے

 

ابھی شمار کے قابل زخم دل میرے

ابھی وہ دشمن جاں مہربان کچھ کم ہے

 

ادھر تو درد کا پیالہ چھلکنے والا ہے

مگر وہ کہتے ہیں یہ داستان کچھ کم ہے

 

ہوائے وقت ذرا پیرہن کی خیر منا

یہ مت سمجھو کہ پرندوں میں جان کچھ کم ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات