اردوئے معلیٰ

سخن رہے گا، سخنور بھی کم نہیں ہوں گے

یہ اور بات ہے کاغذ قلم نہیں ہوں گے

 

ملے گا شورِ ستائش تو شعر خوانوں کو

سخن شناس کنائے بہم نہیں ہوں گے

 

جو چل بھی جائے نظر پر طلسمِ نقش و نگار

حروفِ خام تو دل پر رقم نہیں ہوں گے

 

مذاقِ شعر بدل دے گا جب مزاجِ ہنر

خدا کا شکر ہے اُس وقت ہم نہیں ہوں گے

 

ہمارے درد الگ ہیں، ہمارا لہجہ الگ

کبھی بھی شورِ زمانہ میں ضم نہیں ہوں گے

 

ہمارے سینے میں ٹوٹی ہے آ کے تیغِ ستم

ہمارے بعد کسی پر ستم نہیں ہوں گے

 

جنہیں شناخت ہماری ہی دشمنی سے ملی

رہیں گے وہ بھی نہ باقی جو ہم نہیں ہوں گے

 

تمہارا ہجر سلامت، تمہارے غم آباد

کبھی اکیلے خدا کی قسم نہیں ہوں گے

 

یہ سوچ کر میں غموں میں بھی شاد رہتا ہوں

وہ دن بھی آئیں گے رنج و الم نہیں ہوں گے

 

عجیب راہ چلا ہوں دیارِ غربت میں

گزر گیا بھی تو نقشِ قدم نہیں ہوں گے

 

ملا ہے کاسۂ خود دار اُس کے در سے ظہیرؔ

تمام عمر تہی دست ہم نہیں ہوں گے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ