اردوئے معلیٰ

سخن کے نام پہ شہرت کمانے والے لوگ

ہماری غزلوں سے مصرع اٹھانے والے لوگ

 

لٹا رہے ہیں زمانے میں آج بینائی

کسی کی آنکھ سےسرمہ چرانے والے لوگ

 

بدل چکے ہیں ترے شہر کے گلی کوچے

بھٹک بھی سکتے ہیں رستہ بتانے والے لوگ

 

نہ پوچھ زندگی کیسے ، گزارا کر رہے ہیں

نئے دنوں میں پرانے زمانے والے لوگ

 

ہم اپنے دکھ کو گلے سے لگا کے جی لیں گے

رہیں گے خوش کہاں دل کو دکھانے والے لوگ

 

تمہارے لفظوں نے دل پر لگائی ایسی چوٹ

بکھر گئے ہیں محبت جتانے والے لوگ

 

سفر کی وحشتیں تنہا نکل پڑی ہیں مگر

ٹھہر گئے ہیں مرے ساتھ جانے والے لوگ

 

ہماری موت کا کیوں انتظار ہے ان کو

ہماری زندگی میں تھے جو آنے والے لوگ

 

وہ آج لفظ کی تذلیل پر اتر آئے

کہیں غزل تو کہیں گیت گانے والے لوگ

 

نجانے کون زمانے میں جا بسے قیصر

ہنسی مذاق میں غم کو اڑانے والے لوگ

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے

اشتہارات

لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔

حالیہ اشاعتیں

اشتہارات

اشتہارات