سر بسر آہ و فغاں گریہ و نالہ دل کا
اب کے جاتا ہی نہیں درد یہ پالا دل کا
آرزو ہائے صنم شکوہِ صد رنج و الم
دیکھ حیران ہوں یہ طور نرالا دل کا
دیکھ کر بزمِ رقیباں میں انہیں جاگ اٹھا
ایک مدت سے تھا جو درد سنبھالا دل کا
ان کی ہر ایک جفا میں نے سرِ بزم کہی
خوب میں نے بھی یوں ارمان نکالا دل کا
چشمِ نم دیدہ تڑپ کر یہ خِرد سے بولی
جھوٹ تھا! جھوٹ تھا! ہر ایک حوالہ دل کا
کس قدر کفر پہ مائل تھی طبیعت اس کی
طالبِ وصل نہ تھا چاہنے والا دل کا
گم ہے اب تک وہ کہیں نفرتوں کی گھاٹی میں
جو کبھی نکلا تھا سر کرنے ہمالہ دل کا
لوگ کہتے ہیں کہ عاطف بھی تھا اک سودائی
ڈھونڈتا پھرتا تھا دنیا میں اجالا دل کا