سر نہیں جھکتا ہے نہ جھکے، دل جان سے جھکتا لگتا ہے

راہِ نبی کا ذرّہ ذرّہ مجھ کو تو کعبہ لگتا ہے

روح مجسم ہوتی ہے لمحات سلامی دیتے ہیں

یادِ نبی جب آجاتی ہے کیا کہوں کیسا لگتا ہے

جب وہ طلب فرمائیں گے میں اُڑ کے مدینے پہنچوں گا

حاضریٔ فردوسِ بریں میں اپنا بھلا کیا لگتا ہے

غرقِ ادب ہو جاتا ہے ہر زور بھیانک طوفاں کا

موجِ کرم سے اپنا سفینہ ایسی جگہ جا لگتا ہے

صبحِ ازل کی بات نہیں ہے شامِ ابد کا ذکر نہیں

مجھ کو تو ان کا اک اک جلوہ دیکھا دیکھا لگتا ہے

اہل خرد جب ذکر محمد پاسِ ادب سے کرتے ہیں

میرے کلیجے پر گویا، تیر سا اک آلگتا ہے

عشق نبی کی دنیا میں مفہوم عبادت کیا کہیے

جو بھی قدم اُٹھتا ہے اپنا سجدہ بہ سجدہ لگتا ہے

جذبِ عمل سے بے خود ہوکر سر نہ جھکاؤں کیسے صبیحؔ

مجھ کو تو نامِ آلِ عبا بھی نام نبی کا لگتا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]