اردوئے معلیٰ

سمجھ رہے ہیں کسی آسماں میں رہتے ہیں

یہ خوش گمان جو تیرے گماں میں رہتے ہیں

 

ترے خیال میں پل بھر ٹھہر گئے تو بہت

ہم ایسے لوگ کہاں داستاں میں رہتے ہیں

 

عجب جنوں ہے ، عجب نارسائی ہے اپنی

کہ دشت زاد ہیں ، شہرِ بتاں میں رہتے ہیں

 

جو دن سے تھک کے پہنچتے ہیں گھر تو ساری رات

درِ شکستہ سے لگ کر مکاں میں رہتے ہیں

 

ہم اپنے آپ سے کرتے ہیں اک سوال اور پھر

تمام عمر کسی امتحاں میں رہتے ہیں

 

وہ ابتدا بھی تری تھی یہ انتہا بھی تری

کہ ہم تو ایک رہِ رائیگاں میں رہتے ہیں

 

نہ آئیں گے ترے اس رعب کے اثر میں کبھی

کہ ہم فقیر خود اپنی اماں میں رہتے ہیں

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ