سنگ آئے کہ کوئی پھول، اٹھا کر رکھئے
جو ملے نام پر اُس کے وہ سجا کر رکھئے
سجدۂ عجز سے بڑھ کر نہیں معراج کوئی
سربلندی ہے یہی سر کو جھکا کر رکھئے
دل پہ اُترا ہوا اک حرفِ محبت نہ مٹے
اسمِ اعظم ہے یہ تعویذ بنا کر رکھئے
گر کے خاشاک ہوا جس میں انا کا شیشم
ہے وہی خاکِ شفا اُس کو اٹھا کر رکھئے
ہم یوں کھلتے نہیں دوچار ملاقاتوں میں
ایک دو روز ہمیں پاس بلا کر رکھئے