سوئے اقصیٰ ہے ہوا جاری سفر آج کی رات
سارے نبیوں کی ہے آقا پہ نظر آج کی رات
رب سے محبوب ملے دوریئ قوسین سے جب
مٹ گیا فاصلۂ نور و بشر آج کی رات
غل ہے افلاک پہ آئے گا وہ مہمان حسیں
تب ہی گہنایا سا لگتا ہے قمر آج کی رات
سن کے رودادِ سفر اُن کے ہیں اوسان خطا
دشمنِ دین پریشاں ہیں مگر آج کی رات
کیسے کر لیتے یقیں وارثیؔ وہ منکرِ دین
منتظر کب سے ملائک ہیں ادھر آج کی رات