سوختہ سر کو نہیں اس بات کا ادراک بھی
چاک کر سکتا ہے یہ دل جسم کی پوشاک بھی
یہ سکوں ہے یا سکوتِ مرگ ہے کچھ تو کہو
مطمئن سو جاؤں اب میں ، یا کہ اوڑھوں خاک بھی؟
ضبط کی تاریکیوں میں جھلملاتے ہیں ابھی
موتیوں سے دانت بھی اور دیدہِ نمناک بھی
اک قیامت خیز خوابیدہ جنوں کو چھیڑنا
اور پھر آ کر دکھانا سینہِ صد چاک بھی؟
محوِ گردش تھی زمیں بھی ایک تو قدموں تلے
دوسرے کاندھے پہ اس نے دھر دیے افلاک بھی
کرب و وحشت کا تناسب تھا برابر شعر میں
احتجاجی چیخ بھی تھی ، نعرہِ بے باک بھی
عہدِ بد ذوقی میں جاہل وحشیوں کے غول نے
لُوٹ لیں ناصر فقیرِ عشق کی املاک بھی