سوچتے سوچتے جب سوچ اُدھر جاتی ہے
روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے
دھیان سے جاتا ہے غم بے سروسامانی کا
جب مدینے کی طرف میری نظر جاتی ہے
اُڑتے اُڑتے ہی کبوتر کی طرح آخرِکار
سبز گنبد پہ مری آنکھ ٹھہر جاتی ہے
میں گذرتا ، تو وہاں جاں سے گذرتا چُپ چاپ
یہ ہَوَا کیسے مدینے سے گذر جاتی ہے
بخت میں مجھ سے تو اچھّی ہے رسائی اس کی
جو مدینے کو ترے، راہگذر جاتی ہے
رات جب الٹے قدم آتی ہے دِیدار کے بعد
چُومنے آپ کے قدموں کو سحر جاتی ہے
چاہے یہ ڈور سی اُلجھی رہے دُنیا میں شمار
زندگی جا کر مدینے میں سنور جاتی ہے