سو بسو تذکرے اے میرِ امم تیرے ہیں​

اوجِ قوسین پہ ضَو ریز عَلَم تیرے ہیں​

وقت اور فاصلے کو بھی تری رحمت ہے محیط​

سب زمانے ترے، موجود و عدم تیرے ہیں​

جیسے تارے ہوں سرِ کاہکشاں جلوہ فشاں​

عرصۂ زیست میں یوں نقشِ قدم تیرے ہیں​

اہلِ فتنہ کا تعلّق نہیں تجھ سے کوئی​

قافلے خیر کے اے خیر شیم تیرے ہیں​

ہیں تری ذات پہ سو ناز گنہگاروں کو​

کیسے بے ساختہ کہتے ہیں کہ ہم تیرے ہیں​

ہم کو مطلوب نہیں مال و منالِ ہستی​

ہم طلبگار فقط تیری قسم تیرے ہیں​

ناز بردارئ دنیا کی مشقّت میں نہ ڈال​

ہم کہ پروردۂ صد ناز و نعم تیرے ہیں​

ان کی خوشبو سے مہک جائے مشامِ عالم​

میرے دامن میں جو گلہائے کرم تیرے ہیں​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]